آو الڈ کو جلدی آو، بمبیا گولہ آئی گوا ہے
ممبئی والوں کو شاید خبر نہیں ہوگی کہ ہزار پندرہ سوکلومیٹر دور گاؤں دیہات میں بھی ان کے شہرکا پرانا نام’بمبئی‘ زندہ ہے،وہ بھی بچوں کی مٹھائی کی وجہ سے۔اسی نام سے بچوں کی ایک مٹھائی ہے جوایک زمانے میں بچوں کی پہلی پسند تھی، اسےخریدنے کیلئے بچے اپنے بڑے بوڑھوں سے منت سماجت کرتے تھے۔ دراصل ایک زمانے سے پوروانچل کے گاؤ ں دیہاتوں میں ’بمبیا گولہ‘ بچوں کی پسندیدہ مٹھائی رہی ہے ، حالانکہ اب اس کے بیچنے والے کم کم دکھائی دیتے ہیں، گاؤں کا رخ سال چھ مہینے کے بعد ہی کرتے ہیں۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے بمبیا گولہ بیچنے والے پابندی سے گاؤں آتے تھے ، روزانہ آتے تھے بلکہ ایک دن میں کئی کئی آتے تھے ، عید ، دسہرہ میلہ اور دوسرے تیوہاروں کی بات ہی الگ تھی۔
ایسے خاص مواقع پر گاؤں کی گلیوں میں وقفے وقفے سےان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ عیدگاہ کے باہر سائیکل پر چلتی پھرتی ان کی دکان رک جاتی تھی ، دسہر ہ کے میلے میں بھی دو ر سے بمبیا گولے نظر آجاتےتھے ۔ عید اور دسہرہ وغیرہ پر نئے نئے چہرے دکھائی دیتے تھے ۔ ہر گاؤں میںا ن کی ٹیم آتی تھی ، پرانے بیچنے والوں کے ساتھ ان کے دس بارہ سال یا اس سے چھوٹے بچے بھی آتے تھے ، چھوٹی بچیاں بھی باپ کے ساتھ گلی گلی کی خاک چھانتی تھیں ۔تیوہاروں پر انہیں رک رک کر چلنا پڑتا تھا ، عام دنوں میں جس گلی کا فاصلہ۱۵؍ منٹ میں طے ہوتا تھا، تیوہاروں پر وہی فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے تھے ، بعض دفعہ ایک ہی گلی میں سب بک جاتا تھا ۔ عید کی دن کے پہلے بمبیا گولہ والے عید گاہ کے سامنے سجی دکانوں کا حصہ ہوتے تھے ، پھر وہ گاؤں کی گلیوں میں بھی پھرتے تھے ، بچے’ عیدی ‘ کے پیسہ لے کر ان کے پیچھے دوڑ تے تھے ۔ انہیں ہر وقت گھیرے رہتے تھے ، ایک بچہ بمبیا گولہ لے کر جاتا تھا، دوسراآجاتا تھا ، اس طرح ان کی اچھی خاصی کمائی ہوجاتی تھی ، آخر میں وہ بمبیا گولہ بیچ کر ہنستے مسکراتے ہوئے گھر کی را ہ لیتے تھے۔
گاؤں دیہاتوں میں عام طور پربمبیا گولہ والے سائیکل سے آتے ہیں، سائیکل کے ہینڈل کے نچلے حصے سے اوپر تک ایک بانس کا ڈنڈا لگا رہتا ہے ، اس ایک ڈنڈے پر بانس کے پتلے پتلے کئی ڈنڈے رسی سے باندھے جاتےہیں،یا انہیں کیل کے سہارے اوپر سے نیچے تک بانس پر ٹکا دیا جاتا ہے ۔ روایتی طریقہ یہ ہےکہ بانس کے ڈنڈوں کو جوڑنے کیلئے بانس پر بانس رکھ کرکھیلا ( کیل ) ٹھونک دیا جاتا ہے۔ اس طرح دیسی اسٹینڈ بن جاتا ہے ، پھر اس پر ’ بمبیاگولہ ‘ ٹانگ دیا جاتا ہے جو ایک شفاف پلاسٹک میں پیک ہوتا ہے ، دور سے نظر آتا ہے، گلابی رنگ کا ہوتا ہے ، روئی جیسا ہوتا ہے ، اسی لئے اسے روئی والی مٹھائی بھی کہا جاتا ہے۔کچھ بانس کا دیسی اسٹینڈ ہاتھوں میں لئے ہوئے پیدل ہی گھوم گھو م کر بمبیا گولہ بیچتے ہیں۔ لوگ بتاتےہیںکہ پہلے بمبیا گولہ والا سائیکل سے صبح ، دوپہر اور شام کسی بھی وقت گاؤں پہنچ جاتا تھا، اس کی آمد کا ہر کسی کو علم ہوجاتا تھا، اس کے ہاتھ میں گھنٹی ہوتی تھی یا سیٹی وغیرہ ہوتی تھی ۔ وہ آواز بھی لگاتے تھے ۔ وہ کہتے تھے : ’’آوالڑکو جلد ی آوابمبیاگولہ آئی گوا ہے۔‘‘(آئیں لڑکو ں ، جلدی آئیں ، بمبیا گولہ آگیا ہے )
یہ سنتے ہی بچے گھروں سے نکل آتے تھے ، ایک پل کیلئے بھی نہیں رکتے تھے۔ بھاگ کربمبیا گولہ والے کےپاس جاتے تھے اور انہیں رکواتے تھے۔ ان سے کہتے تھے :’’ رکے رہا ...لے وے کاہے ۔‘‘ ( رکے رہئے..لینا ہے )انہیں رکوانے کے بعد بچے گھر جاتے تھے ،گھر والو ں سے پیسے مانگتے تھے ،انتہائی عاجزی سے کہتے تھے :’’ امی ! پیسہ دے دے ... بمبیا گولہ لے وے کا ہے ، دورواں کھڑے ہیں بیچے والے ۔‘‘( امی پیسہ دے دو ، بمبیا گولہ خریدنا ہے ، دروازے پر بیچنے والے کھڑے ہیں )
عام طور پر بچوں کی ایک رقم طے ہوتی تھی۔مالی حالت کے اعتبا ر سے ہر گھر میں بچوں کو یومیہ جیب خر چ ملتا تھا ۔ دس بیس سال پہلے تک عمر کے اعتبا ر سےکسی کو ایک کسی کو دو،تین ،چاراورکسی کسی کو پانچ روپے ملتے تھے ۔ان سے پرانے لوگ یومیہ جیب خر چ پیسے میں پاتےتھے ۔ یہ رقم خرچ ہونے کے بعدبمبیا گولہ والے آتے تھےتو گھروالوں کو منا نا مشکل ہوجا تا تھا۔ کوئی کہتاتھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے لے کر گئے تھے .. اب نہیں ملے گا۔ اس پر گھر کا کوئی فرد کہتاتھا :’’ جادہ پیسہ کھیہا ، بگڑ جیہا۔‘‘( زیادہ پیسہ کھاؤگے تو بگڑ جاؤ گے )
پھر کیا تھا ؟ بمبیا گولہ حاصل کرنے کیلئے موٹے موٹے آنسو بہانے پڑتے تھے ، روٹھنا پڑتا تھا ، اس پر گھر کے کسی نہ کسی فرد کو تر س آ جاتاتھااور وہ گھر کے’ وزیر خزانہ ‘سےوکالت کرتے تھے :’’ دے دیا لڑ کا ہے ... آج دے دا ، پھر مت دیہے ..ہر دم ہردم پیسہ نہ کھا واجاتے با بو ..یا بنی ۔‘‘( آج دے دیجئے ، پھر مت دینا .. ہر وقت پیسہ نہیں کھا یاجاتا بیٹا ..یا بیٹی )
اس ڈرامے میں کبھی کبھی بمبیا گولہ والا آگے بڑھ جاتا تھا، پھر اسے دوڑ کر ڈھونڈ نا پڑتا تھا ، اپنے ہم عمر بچوں سے پوچھنا پڑتا تھا: ’’ہے بمبیا گولواوالے کا دیکھے ہے ۔ ‘‘( ارے بمبئیا گولہ والے کو دیکھے ہو ) یہ کوشش کبھی کبھی ناکام ہو جاتی تھی ۔بمبیا گولہ والے ’انارے ‘ (کنویں )کے ’چوترے‘ (چبوترے )پربھی اپنی دکان سجاتے تھے ۔
بمبیاگولہ نام رکھنے کی وجہ ممبئی کی کشش تھی ، بچے ممبئی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سے جاننا چاہتے تھے ، ممبئی سے آنےو الوں کے پاس بیٹھتے تھے ، ان سے ’ممبئی کے قصے‘ کہانی کی طرح سنتے تھے۔
Manzar Ansari
03-Feb-2022 05:34 PM
Good
Reply
Nishat Gauhar
04-Jan-2022 08:36 PM
👍
Reply
Islahih_writer
13-Jan-2022 12:49 AM
شکریہ
Reply